پر شکستہ سے یہ پتوار نظر آتے ہیں
ڈوب جانے كے سے آثار نظر آتے ہیں
آپ نے کر دیے گل سارے دیے ایک ہی ساتھ
کتنے سونے دَر و دیوار نظر آتے ہیں
آج جب خوشیاں ہیں ہر سمت تو پِھر کیوں کچھ لوگ
عہد رفتہ كے عزادار نظر آتے ہیں
دَرد کا درماں طلب کیسے کرے میری انا
کتنے بے بس میرے غم خوار نظر آتے ہیں
یہ ہے دنیا یہاں پتھر بھی ملیں بن مانگے
" آپ پھولوں كے خریدار نظر آتے ہیں "
زندگی ہو كے گزر آئی ہے جن راہوں سے
ان پہ کچھ سوکھے سے اشجار نظر آتے ہیں
کام کچھ آن پڑا ہے انہیں مجھ سے شاید
بات کرنے كے رَوا دار نظر آتے ہیں
وہ كے زخموں پہ تسلّی کا نہ مرہم رکھیں
غمگساری كے طلب گار نظر آتے ہیں
No comments:
Post a Comment